معاشی انسان اور کراچی

تحریر: عتیق الرحمن
مروجہ اقتصادیات ایک انسان کو جس طرح کا تصور کرتی ہے یا دیکھنا چاہتی ہے، اس تصور کو معاشی انسان
(Economic Man)
کہا جاتا ہے۔ معاشی انسان میں درجہ ذیل خصوصیات کی موجودگی ضروری ہے:
۱۔ مذہب اور مذہبی ذمہ داریوں کو ذاتی زندگی تک محدود سمجھنا اور سماجی ومعاشی ذمہ داریوں کی مذہب سے مکمل علیحدگی
۲۔ اپنے ذاتی فائدہ کے حصول کی تگ ودو میں مصروف رہنا
(Serving Self Interest)
۳۔ اقتصادی فیصلوں میں صرف اور صرف ذاتی مفاد کو مدنظر رکھنا (Utility Maximization)

اقتصادیات کی زبان میں مندرجہ بالا خصوصیات کے حامل افراد کو منطقی فیصلے کرنے والا
(Rational Decision Maker)
کہا جاتا ہے۔
اور اگر کسی شخص کا طرزعمل ان خصوصیات کے مطابق نہ ہو تو اسے غیر منطقی
(Irrational)
کہا جاتا ہے۔
ماہرین معاشیات کے مطابق معاشرے کی اعلی ترین فلاح کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص منطقی فیصلے کرے۔ اگر ہر آدمی اپنے مفاد کو مدنظر رکھے گا تو تبھی معاشرتی فلاح اعلی ترین سطح پر ہوگی، کیونکہ ہر شخص کا مقصد کا مقصد حیات اپنے مفادات کا حصول ہے۔ اس طرزعمل کے اندر ایک ایسا خودکار میکینزم یا پوشیدہ ہاتھ
(Invisible Hand)
موجود ہے جو معاشرتی فلاح کو اعلی ترین سطح سے نیچے نہیں آنے دیتا۔ مثلا اگر ایک مزدور کو اس کا فیکٹری مالک مارکیٹ سے کم پیسے دینا چاہتا ہے تو مزدور کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ دوسری فیکٹری میں چلاجائے۔ چنانچہ مالک ایک ماہر کارکن سے محرومی کے خدشے پیش نظر کم پیسے دینے سے اجتناب کرے گا۔ اسی طرح مارکیٹ میں کوئی دکاندار زیادہ نرخ نہیں لگا سکتا، اگر وہ ایسا کرے گا تو گاہک اسکی دکان کے بجائے کسی اور دکان کا رخ کریگا۔ اس لئے معاشرتی فلاح کیلئے صرف ایک کام کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ مارکیٹ کو بالکل فری چھوڑ دیا جائے۔ کچھ لوگوں نے مارکیٹ کی بلا حدود آزادی میں صرف معمولی گورنمنٹ کی مداخلت کی وکالت کی تاکہ اگر کہیں مارکیٹ میں کوئی خلل آجائے اسے درست کیا جاسکے۔ تاہم اس نکتہ پر وسیع تر اتفاق ہے کہ عام آدمی کی سطح پر کرنے کا صرف ایک ہی ہے، وہ یہ کہ اپنے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ کسی دوسرے کو آپ کے طرزعمل سے فائدہ ہو یا نقصان آپ کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوجانا چاہیئے۔ یعنی کہ فلاح زندگی اپنے من میں ڈوب کر ملے گی۔
ان معاشی تصورات کو بہت سارے ماہرین نے منطقی بنیاد
(logical grounds)
پر چیلنج کیا، بالخصوص گیم تھیوری نامی اکنامکس کی ایک شاخ کے ماہرین نے تجربات کی مدد سے ثابت کیا کہ نہ تو نام نہاد منطقی فیصلہ
(rational decision)
معاشرے کی فلاح کا ضامن ہے اور نہ ہی انسانی طرزعمل مکمل معاشی انسان جیسا ہے۔ پہلی حقیقت کو ایک آسان مثال سے یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ فرض کریں ایک فیکٹری میں دو مزدور کام کرتے ہیں، اور فیکٹری مالک کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ ان کی ہروقت نگرانی کرے، چنانچہ مزدوروں کے لئے ممکن ہیکہ وہ کام میں ڈنڈی ماریں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک مزدور کام چوری کرے تو یہ اس کے ذاتی مفاد
(self-interest)
میں ہے، لیکن اگر دونوں مزدور ایک ساتھ کام چوری میں لگ جائیں تو فیکٹری مالک کو فیکٹری بند کرنی پڑے گی، اس سے مزدور اور مالک سبھی کا نقصان ہوگا۔ ایسی صورت میں مجموعی فلاح کا کیا حال ہو گا اس کا تصور کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
خیر یہ تو لمبی بحث ہے کہ منطقی فیصلہ سازی کس حد تک فائدہ مند ہے لیکن جنوری میں کراچی کے مختصر دورہ کے دوران احساس ہوا کے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کی کامیابی کا راز اس میں ہے کہ انہوں نے عوام کو بڑی حد تک معاشی انسان بننے پر مجبور کردیا ہے۔ آدمی اپنی ذات کے خول میں اس قدر بند ہو چکا ہے کہ اسے کسی دوسرے کے نفع نقصان کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ ویسے تو یہ خصوصیات سارے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی جارہی ہیں لیکن کراچی میں ان کا مشاہدہ کچھ زیادہ ہی محسوس ہوا۔ وہاں صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آپکے سامنے کسی کو قتل کردیا جائے، تو آپ گواہ بننے کیلئے کبھی تیار نہیں ہوسکیں گے، کیونکہ آپ کی اپنی بھی ایک جان ہے جو کسی بھی وقت دہشت گردوں کی مشق ستم کا نشانہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ وہ حکم شریعت کہ گواہی کو نہ چھپاؤ، جو گواہی چھپائے گا اس کا دل گناہگار ہے، دہشت گردوں اور مجرموں نے حالات کو اس نہج پر لا کھڑا کیا کہ ایک معاشی انسان کی طرح آپ دین کے اس حکم کو خاطر میں نہ لانے پر مجبور ہوکر معاشی انسان ہونے کی پہلی شرط ہوری کرنے پر مجبور ہیں۔
خیر یہ تو بات وہاں تک تھی جہاں انسان جرم کے ہاتھوں بے بس ہے، لیکن آپ کو ایسے نظارے بھی بکثرت ملیں گے کہ جہاں لوگ اپنے اختیار سے ان حرکات پر عمل پیرا ہیں جو ایک ایک معاشی انسان کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ سندھ سکیرٹریٹ کے دورہ میں وہاں جابجا کوڑے کے ڈھیر دیکھ کر بڑی ناگوار حیرت ہوئی، سیکرٹریٹ ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ڈائریکٹر اور سیکرٹری لیول کے بیسیوں افراد کے دفاتر ہوتے ہیں، اور انکے آگے بیشمار ماتحت عملہ بھی یقینا ہوگا۔ اگر ڈائریکٹر صاحب کے خود ہاتھ میلے ہورہے ہوں تو وہ ماتحت صفائی کے عملہ کو اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ اس ڈھیر کو جمع کرکے آگ لگا دو اور اس حرکت میں دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا، لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ڈائریکٹر صاحب اپنے ماحول سے اس طرح بے پرواہ ہیں جیسے ایک معاشی انسان اپنے فیصلے کے وسیع تر سماجی مضمرات سے بے پرواہ ہوتا ہے۔ انہیں اگر دلچسپی ہے تو اپنی تنخواہ سے جو ان کی یوٹیلٹی میں اضافہ کرتی ہے یا پھررشوت و کرپشن کی آمدنی میں جو ان کو اضافی فائدہ
(additional utility)
مہیا کرتی ہے۔ چنانچہ وہاں کی حالت کو دکھ کر پہلا احسا س تو یہ ہوا کہ یہ لوگ اپنے من میں ڈوبے ہوئے ہیں، لیکن کوشش کے باوجود میں علامہ اقبال کے مصرعہ کو وہاں کے افسران پر منطبق نہ کر سکا، اور احساس ہوا کہ اچھا ہوتا اگر علامہ اقبال اس شہر کو اس طرح کہتے (اپنے من میں ڈوب کر کھودے وقار زندگی)
کراچی میں قیام کے دوران ہمار اقیام کراچی کے ایک مضافاتی علاقےمیں تھا، اور وہاں ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ جسوقت واٹر سپلائی والے پانی کی سپلائی چھوڑتے ہیں، تقریبا ہر گھر سے پانی بہہ کر گلی میں آرہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے گلی سے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے، اس اذیت سے دوسروں کو نجات دینے کیلئے کسی لمبی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں، پلاسٹک کی ایک پچاس روپے کی ٹونٹی سے لوگوں کے لئے اس اذیت کے سبب کا سدباب ممکن ہے، لیکن اپنے من میں ڈوبے عوام کو کسی کی کیا پرواہ؟
گلی محلوں میں آپکو جابجا کوڑے کے ڈھیر نظر آئیں گے، اور ان کے سدباب کے لئے حکومتی مداخلت کوئی ضرورت نہیں، وہ اگر اتنی اہل ہوتی تو سندھ سیکرٹریٹ کی صفائی تو کر ہی لیتی، اپنی مدد آپ کے تحت کوڑے کے ڈھیر کو جمع کر کے نظرآتش تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے کسی کی ذاتی یوٹیلٹی میں کوئی خاص اضافہ متوقع نہیں، اس لئے یہ کرنے کے کاموں میں شامل نہیں۔
چنانچہ لوگوں کے اپنی ذات کے خول میں بندہوجانے کی وجہ سے مجرموں اور دہشتگردوں کے لئے آسانی پیدا ہوگئی، کوئی اپنی جان پہ خطرہ مول لے کہ کیونکر کسی مجرم کے خلاف گواہی دے، اور کسی کو کیا پرواہ اگر شہر میں جرائم ہو رہے ہیں، جب اپنی جان پر بنے گی تو دیکھا جائے گا۔ پولیس کو کیا غرض کہ وہ عوام کی سکیورٹی کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالے، افسر کو کیا غرض کے وہ عوامی فلاح کی سوچے، عوام کو کیا کہ وہ جان کو خطرے میں ڈال کر ایماندار لیڈروں کو ووٹ دیں۔ ہر کسی کی اپنی الگ دنیا ہے اور اس کے لئے اس کام کی اہمیت ہے جس سے اس کے اپنے مفاد میں اضافہ
(utility maximize)
ہو۔
یہ مضمون دو نتائج کی طرف دلالت کرتا ہے، (۱) وہ لوگ جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نام نہاد منطقی فیصلہ سازی
(rational decision making)
سے مجموعی فلاح ممکن ہے وہ کراچی کا حال دیکھ لیں، (۲) کراچی کی فلاح کے لئے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ انہیں معاشی انسان سے واپس نارمل انسان کی سطح پر واپس لایا جائے۔

نوٹ: یہ بات کسی شبہ سے بالاتر ہے ہے کہ کراچی کے بہت سے لوگ فلاحی کاموں میں اس قدر آگے ہیں کہ جن کی خدمات تصور سے بالاتر ہیں، متعدد جگہ پرہزاروں حاجتمندوں کے لئے روزانہ فری کھانے کا بندوبست ہوتا ہے، لیکن ایسے غیر منطقی لوگوں کے مقابلے میں معاشی انسانوں کی کثرت کو ہر شخص ملاحظہ کر سکتا ہے۔

Date posted: March 1, 2014
Author:
1 Comment »
Categories: Blogs

Comments (1 response)

  • Nadia says:

    Dear Sir: Nice work. I always wait for your new observation/ research. One request is kindly look at some missing lines. I think if this gap will fill then, it will not break the reader’s interest. Thank you.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *